Friday, 12 August 2011

شعر

زخموں کو بھرتے بھرتے اب تو دل ہی بھر چکا
اپنا حساب آ کے اے چارہ گر چکا
دوزخم کھا کہ کیا میں وہ رستہ ہی چھوڑ دوں
جس میں میرے قبیل کا ہر فرد مر چکا

شعر

جاں دی، دی ہوئی اسی کی تھی 
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

شعر

جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے، انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا، وہ قدم قدم پر بہک گئے

شعر

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

شعر

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی جبیں پر
مرقوم تیرا نام ہے کچھ ہو کہ رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شعر

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

جستجو



اگست سے اگست تک


شعر