Saturday, 13 August 2011

تم کو کیسے کہوں پھر، میں آزادی مبارک


غزل

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
یہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوئے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں‌کے سائے ہیں
تعارف روگ ہو جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے تکمیل تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ‌دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

غزل

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا
اس دل کے دريدہ دامن میں، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا
شب بيتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجير پڑی دروازے پہ
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کيا
پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کریں
ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا

غزل

سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے
ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن
مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے
دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے
یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا فراز
میں کوشش کر کے اب خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے

غزل

کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تیرا
ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پُوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا
اس شہر میں کِس سے مِلیں، ہم سے تو چُھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا
کُوچے کو تیرے چھوڑ کے جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا
تُو باوفا، تُو مہرباں، ہم اور تجھ سے بدگماں؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھہرا تیرا
بے شک اسی کا دوش ہے، کہتا نہیں خاموش ہے
تو آپ کر ایسی دوا، بیمار ہو اچھا تیرا
ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ اُفتادگی؟
احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسنِ بے پروا تیرا
دو اشک جانے کِس لیے، پلکوں پہ آ کر ٹِک گئے
الطاف کی بارش تیری اکرام کا دریا تیرا
اے بے دریغ و بے اَماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تِری وحشت سہی ، ہم کو سہی سودا تیرا
ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگُزر
رستہ کبھی روکا تیرا دامن کبھی تھاما تیرا
ہاں ہاں تیری صورت حسیں، لیکن تُو اتنا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شعر ہوا کیا کیا تیرا
بے درد، سُنتی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رُسوا تیرا، شاعر تیرا، اِنشا تیرا

غزل


اے عشق نہ  چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم  بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو  اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ ، یہ تازہ ستم  ایجاد نہ  کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد  نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ  کر
جس دن سے  ملے  ہیں  دونوں  کا، سب  چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہار صبح گئی، آنکھوں سے فروغ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا، ہونٹوں سے ہنسی  کا نام گیا
غمگیں نہ بنا،  ناشاد  نہ  کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں
اے عشق! یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟
یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
یہ روگ لگا ہے جب  سے  ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر  وقت  خلش بے خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ
جینے سے  ادھر بیزار ہوں میں،  مرنے  پہ ادھر تیار ہے وہ
اور ضبط  کہے  فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے بندھا  ہے دھیان ترا، گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر  کر  کے شرمائے  ہوئے  سے رہتے  ہیں
کملائے ہوئے پھولوں  کی طرح  کملائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال  نہ کر، برباد نہ  کر
اے عشق  ہمیں  برباد نہ کر
بیددر!  ذرا  انصاف تو  کر! اس عمر میں اور مغموم  ہے وہ
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی ، تاروں  کی طرح معصوم ہے وہ
یہ حسن ، ستم! یہ رنج، غضب! مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ
مظلوم  پہ  یوں  بیداد  نہ  کر
اے عشق ہمیں  برباد نہ کر
اے  عشق خدارا دیکھ کہیں ، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
وہ ماہ لقا بدنام نہ  ہو، وہ  زہرہ جبیں بدنام نہ  ہو
ناموس کا اس  کے  پاس  رہے،  وہ پردہ نشیں  بدنام نہ ہو
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد  نہ  کر
امید کی جھوٹی جنت کے، رہ  رہ  کے  نہ  دکھلا خواب ہمیں
آئندہ کی فرضی عشرت  کے، وعدوں  سے نہ کر بیتاب  ہمیں
کہتا ہے  زمانہ  جس کو خوشی ، آتی  ہے نظر کمیاب ہمیں
چھوڑ ایسی خوشی کویادنہ کر
اے  عشق  ہمیں برباد نہ کر
کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہم
ہے پہلے  پہل کا  تجربہ  اور کم عمر ہیں ہم،  انجان ہیں ہم
اے عشق ! خدارا رحم و کرم! معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہم
نادان  ہیں  ہم، ناشاد نہ  کر
اے عشق ہمیں برباد  نہ کر
وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا  جائے کوئی تو خیر نہیں
آنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آجائے کوئی تو خیر نہیں
ظالم ہے یہ  دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو  خیر نہیں
ہے ظلم مگر  فریاد  نہ  کر
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر
دو دن  ہی میں عہد طفلی  کے، معصوم زمانے بھول گئے
آنکھوں سےوہ خوشیاں مٹ سی گئیں، لب کووہ ترانےبھول گئے
ان  پاک بہشتی خوابوں  کے،  دلچسپ فسانے بھول گئے
ان خوابوں سے یوں آزادنہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اس جان حیا  کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے بس میں ہے
بے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو  پیار  یہاں آپس میں ہے
ہے  بے بسی زہر  اور  پیار ہے  رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
کہتی ہے حیا  فریاد  نہ  کر
اے عشق ہمیں  برباد نہ کر
آنکھوں کو  یہ  کیا آزار ہوا ، ہر  جذب نہاں پر رو دینا
آہنگ  طرب پر جھک جانا، آواز فغاں  پر  رو دینا
بربط کی صدا پر رو دینا، مطرب کے  بیاں پر رو دینا
احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
ہر دم ابدی راحت  کا سماں  دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر
للہ حباب  آب رواں  پر  نقش بقا تحریر نہ  کر
مایوسی کے رمتے بادل  پر  امید کے گھر تعمیر نہ  کر
تعمیر نہ کر، آباد نہ کر
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر
جی چاہتا ہے اک دوسرے کو  یوں  آٹھ  پہر ہم  یاد  کریں
آنکھوں  میں  بسائیں خوابوں کو، اور دل میں خیال آباد کریں
خلوت میں بھی ہوجلوت کاسماں، وحدت کودوئی سےشادکریں
یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
دنیا کا  تماشا  دیکھ  لیا، غمگین  سی ہے ، بے  تاب سی ہے
امید یہا ں اک وہم سی ہے‘ تسکین یہاں اک خواب  سی ہے
دنیا میں خوشی کا نام نہیں‘ دنیا میں خوشی نایاب  سی ہے
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں  برباد نہ کر

غزل

کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پے نام لکھنا
ھمیں بھی ھے یاد آج تک وہ، نظر سے حرفِ سلام لکھنا

وہ جاند چہرے، وہ بہکی باتیں، سلگتے دن تھے، سلگتی راتیں
...وہ چھوٹے چھوٹے سے کاغذوں پے محبتوں کے پیام لکھنا

گلاب چہروں سے دل لگانا، وہ چپکے چپکے نظر ملانا
وہ آرزُوؤں کے خواب بُننا، وہ قصہءِ نا تمام لکھنا

میرے نگر کی حسیں فضاؤ، کہیں جو اُن کا نشان پاؤ
تو پوچھنا کہ کہاں بسے وہ، کہاں ھے اُن کا قیام لکھنا

گئی رتوں میں حسن ھمارا، بس ایک یہ ھی تو مشغلہ تھا
کسی کے چہرتے کو صبح کہنا، کسی کی زلفوں کو شام لکھنا۔۔۔۔

غزل

تمہارے خط مـیں نیا ایک سلام کس کا تهـا؟
نه تهـا رقیب کا، آخر وه نام کس کا تهـا؟
رہا نه دل مـیں وه بیدرد، اور درد رهـا
مقیم کـون ہوا، اور مقام کس کا تهـا؟
وفا کـریں گے، نبهـائیں گے، بات مـانیں گے
تمہیں بهی یاد ہوگا یه کلام کس کا تهـا؟
گـذر گیا وه زمـانه، کہیں تو کس سے کہیں
خیال دل مـیں مـیرے صبح و شـام کس کا تهـا؟
وه قتل کـر مجهے ہر کسـی سے پوچـهتے ہے
یه کام کس نے کیا، یه کام کس کا تهـا؟
تمـام بزم جسے سـن کے ره گئی مشـتاق
کہـو وه تذکـره ناتمـام کس کا تهـا؟
نه پوچـهـ پاچ کسـی کے تهے وہاں، نه آو بهگت
تمہارے بزم مـین کل اہتمـام کس کا تهـا؟
ہمـارے خط کے تو پرزے کئی پڑهـا بهی نہیں
سـنا جو تو نے به دل وه پیام کس کا تهـا؟
اسـی صفات سے ہوتا ہے آدمـی مشهـور
جو لطف آپ ہی کـرتے ہین تو نام کس کا تهـا؟
ہر ایک سے کہتے ہے که "داغ" بیوفا نکلا
یه پوچـهے ان سے کـوئی، وه غلام کس کا تهـا

غزل


چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تاره بنا ڈالا
میری آوارگی نے مجهـ کو آواره بنا ڈالا

بڑا دلکش، بڑا رنگین ہے یه شہر، کہتے ہیں
یہان پر ہیں ہزاروں گهر، گهروں میں لوگ رہتے ہیں
مجهے اس شهر نے گلیوں کا بنجاره بنا ڈالا

میں اس دنیا کو اکثر دیکهـ کر حیران ہوتا ہوں
نه مجهـ سے بن سکا چهوٹا سا گهر، دن رات روتا ہوں
خدایا تو نے کیسے یه جہاں سارا بنا ڈالا؟

میرے مالک! میرا دل کیوں تڑپتا ہے، سلگتا ہے؟
تیری مرضی، تیری مرضی په کس کا زور چلتا ہے؟
کیسی کو گل، کسی کو تو نے انگاره بنا ڈالا

یہی آغاز تها میرا، یہی انجام ہونا تها
مجهے برباد ہونا تها، مجهے ناکام ہونا تها
مجهے تقدیر نے تقدیر کا مارا بنا ڈالا

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تاره بنا ڈالا
چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تاره بنا ڈالا
میری آوارگی نے مجهـ کو آواره بنا ڈالا

غزل


ہم کو کس کے غم نے ما را؟ یه کہانی پهر سہی
کس نے تهوڑا دل ہمارا؟ یه کہانی پهر سہی
دل کے لوٹنے کا سبب پوچهو نه سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا، یه کہانی پهر سہی
نفرتوں کے تیر کها کر، دوستوں کے شہر میں
ہم نے کس کس کو پکارا؟ یه کہانی پهر سہی
کیا بتائیں پیار کے بازی وفا کے راه میں؟
کون جیتا، کون ہارا؟ یه کہانی پهر سہی

غزل


سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

غزل



پسِ مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
اُسے آہ دامنِ باد نے سرِ شام ہی بجھا دیا
مجھے دفن کرنا تو جس گھڑی، تو یہ اُس سے کہنا
وہ جو تیرا عاشقِ زار تھا، تہ خاک اُس کو دبا دیا
دمِ غسل سے مرے پیشتر، اُسے ہمدموں نے یہ سوچ کر
کہیں جاوے نہ اس کا دل دہل مری لاش پر سے ہٹا دیا
مری آنکھ جھپکی تھی ایک پل میرے دل نے چاہا کہ اٹھ کہ چل
دلِ بیقرار نے او میاں! وہیں چٹکی لے کے جگا دیا
میں نے دل دیا، میں نے جان دی! مگر آہ تو نے قدر نہ کی
کسی بات کو جو کبھی کہا، اسے چٹکیوں میں اڑا دی

غزل


مَیں خیال ہوں کِسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مِرا عکس ہے پسِ آئینہ کوئی اور ہے
میں کِسی کے دستِ طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کِسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے، مجھے جانتا کوئی اور ہے
مِری روشنی تِرے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں، تُو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دُشمنوں کی خبر نہ تھی ، مجھے دوستوں کا پتہ نہیں
تِری داستاں کوئی اور تھی، مِرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا، یہ مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں ،دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو مری ریاضتِ نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے

غزل

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا


میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعہ ء فال مرے نام کا اکثر نکلا

تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا

میں نے اس جان ِ بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول میری شاخِ ہنر پر نکلا

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا

میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
احمد فراز

غزل

دشتِ تنہائی میں

دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہے
تیری آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں، دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں، ترے پہلو کے سمن اور گلاب

اُٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو سے سُلگتی ہوئی مدھم مدھم
دور اُفق پار، چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے ترے دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں رکھا ہے
دل کے رُخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے بھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن، آ بھی گئی وصل کی رات

فیض احمد فیض

غزل

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

کوئی دم کا مہمان ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہت ہوں


علامہ اقبال

غزل

ہم تیرے شہر میں آئے ہیں مسافر کی طرح
صرف اک بار ملاقات کا موقع دے دے

میری منزل ہے کہاں میرا ٹھکانا ہے کہاں
صبح تک تجھ سے بچھڑ کر مجھے جانا ہے کہاں
سوچنے کے لیے ایک رات کا موقع دے دے

اپنی آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں جگنو میں نے
اپنی پلکوں پہ سجا رکھے ہیں آنسو میں نے
میری آنکھوں کو بھی برسات کا موقع دے دے

آج کی رات میرا دردِ محبت سُن لے
کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کی شکایت سُن لے
آج اظہارِ خیالات کا موقع دے دے

بھلانا تھا تو یہ اقرار کیا ہی کیوں تھا
بےوفا تُو نے مجھے پیار کیا ہی کیوں تھا
صرف دو چار سوالات کا موقع دے دے


=========
قیصرالجعفری

غزل

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر، وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرُو، تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیانِ شوق کا برملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہء ملامتِ اقربا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی ایسی بات اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مِرے دل سے صاف اتر گئی
تَو کہا کہ جانے مِری بلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

(حکیم مومن خان مومن)

غزل

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

شور برپا ہے خانہء دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی

شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

ناصر کاظمی

غزل

اجنبی شہر کے اجنبی راستے  
میری تنہائی پر مسکراتے رہے 

میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا

تم بہت دیر تک یاد آتے رہے

زہر ملتا رہے، زہر پیتے رہے

روز مرتے رہے، روز جیتے رہے

زندگی ہمیں آزماتی رہی 

اور ہم بھی اسے آزماتے رہے 

زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا

زندگی کی طرف اک دریچہ کھلا

ہم بھی گویا کسی ساز کی تار ہیں 

چوٹ کھا تےرہے، گنگناتے رہے 

 کل کچھ ایسا ہوا، میں بہت تھک گیا 

اس لئے سن کہ بھی ان سنی کر گیا

کتنی یادوں کہ بھٹکے کارواں

دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے 

اجنبی شہر کے اجنبی راستے 

میری تنہائی پر مسکراتے رہے

شعر

اقبال بڑا اُپدیشک ہے مَن باتوں میں موہ لیتا ہے 
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا